ساون کی گھٹا جب چومنے لگے ،ھاتھوں کو تمہارے نرمی سے
انچل کو گرایا چہرے پہ ، گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
اتو گیے ھو ، یادوں میں ، جاؤگے ،کیسے کس راہ سے؟
خوابوں میں بھی آیے تھے میرے ، گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
نرمی سے جو میں نے چھوا تھا ،رخسار کو تیرے ھاتھوں سے
چوما تھا جانم ھاتھ میرا ، گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
کاجل جو لگایا تھا تم نے ،جو قتل کیے تھے ، دو اورچار
ھم بھی وھاں پر زخمی ھوے ، گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
اک نیم نگاہ،اک لغزش لب
جو تم نے دیا تھابانگ سحر،گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
ھاتھوں پہ تمہارے میندی لگی ، میں نے جو ھٹاییں ذلفیں تیری
شرما کے جو ڈالی نیم نگاہ گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
اجاؤ اب بھی باھوں میں ، تا مثل شاھین پرواز کریں
یہ کام تو کرچکی ھو صنم ، گر یاد نہیں تو یاد کرؤ
رجنی پران کمار
نیویارک 2011
امکان ثبت دیدگاه وجود ندارد.