از: رجنی “پران” کمار
چاندنی رات تھی وہ گلبدن آئی میرے خیالوں میں
نہ ھم سوے نہ اس کوسونے دیا ھم نے
ذلف لہرا رھی تھی چہرہ پہ اس کے
بی خیالی میں چوم رھی تھی رخسار اس کے
گستاخ نگایں بھی پریشان تھي اپنی حرکت سے
نہ جانے پھر سے کیوں دیکھا تھا ھم نے مڑ کے اسے
چھپکے اک ھوک سی اٹھی تھی دل میں میرے
کاش اک روز میری زندگی میں اجاؤ
فضایں جھوم اٹھیں گی تیرے شباب سے اس دن
ھوایں مست ھو اٹھیں گی تیرے انے سے
شجر بھی پھول گرایں گے تیری ذلفوں پر
ناچ اٹھے گی یہ دنیا ساری
کاش اک روز میری زندگی میں اجاؤ
پھر تمیں ھم گلے لگایں گے
خوب تجھسے کریں گے شکوے گلے
تیری انکھوں کو چوم لیںگے ھم
تم جو شرماکے جہک سی جاؤگی
عطر گیسو کا مست کردے گا مجھے
بن پیے میں شراب ناچوں گا
کاش اک روز میری زندگی میں اجاؤ
ھونٹ تیرے جو تھر تھرایں گے
لوریاں دے کی ھم سلادیں گے
تیری اس شربتی انکھوں کی قسم
تیرے رخسار جب چمکنے لگیں
ھوش کھودوں گآ میں تاروں کی طرح
گیت گایئں جب جھرنے سارے
بلبلیں بھی صدایں دیکیں تمیں
کاش اک روز میري زندگی میں اجاؤ
جب شرم سے اؤگی میری باھوں میں گھنٹیاں بجنے لگیں گی دل کے بت خانے میں
پھر مجھے ھوش میں لانا ھوگا
کاش اک روز میری زندگی میں اجــــاؤ